طالبان کہانی ۔۔۔۔۔۔ پارٹ ون
یہ بات ہے جنگ عظیم دوم کے بعد کی ۔۔۔۔ جنگ عظیم دوم یعنی دوسری جنگ جس میں تقریبا پوری دنیا شامل ہوئی ١٩٤٥ تک لڑی گئی۔ اس کے بعد دنیا کے بڑے ممالک نے آپس میں معاہدے کیے کہ اب ہم کسی کمزور سے کمزور ملک کی سالمیت کا خیال رکھیں گے اور جنگ سے گریز کریں گے۔ لیکن انسان تو بنا ہی فسادی مٹی سے ہے۔ ہوا یہ کہ ١٩٤٥ کے بعد یورپین یعنی فرانس برطانیہ جرمنی اور اٹلی کا زور ٹوٹ گیا جبکہ دنیا میں دو سپر پاورز سامنے آئیں وہ تھیں امریکہ اور روس ۔۔۔۔۔
امریکہ اور روس اب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرنے لگے۔ یاد رکھیں دنیا میں ایک بندے کی زندگی سے لے کر ایک ملک کی زندگی تک ۔۔۔ دنیاوی لحاظ سے طاقتور وہی ہو گا جس کے پاس پیسہ ہے۔۔۔ آپ موجودہ دور سے ہی حساب لگا لیں کہ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقت ہیں لیکن عالمی فورمز پر جرمنی اور جاپان کی زیادہ سنی جاتی ہے کیونکہ وہ بالترتیب تیسری اور چوتھی بڑی معاشی طاقت یعنی امیر ترین ملک ہیں۔ اب پیسہ آئے گا کہاں سے؟؟ پیسہ آتا ہے تجارت سے۔۔۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجارت میں دنیا کی کل دولت کا نوے فیصد حصہ ہے۔ اب تجارت کیسے ہو گی؟؟ تجارت ہوتی ہے دو چیزوں سے۔۔۔ نمبر ایک مال نمبر دو منڈی ۔۔۔ مال میں چیزیں جو بیچنی ہیں وہ وافر مقدار میں ہوں دوسرے نمبر پر انکی ترسیل یعنی آگے پہنچانے کا بھی مناسب بندوبست ہو۔ منڈی ایسی ہونی چاہیے جہاں آبادی زیادہ ہو اور آبادی کے درمیان پر ہو۔۔۔ مثال کے طور پر اس بندے کی دوکان چلتی ہے جس کی بھری ہوتی ہے اور آبادی کے درمیان میں ہوتی ہے۔۔۔۔
تو امریکہ اور روس نے دنیا کے وسائل پر قبضہ جمانے کے لیے سرد جنگ شروع کی۔ سرد جنگ سے مراد ہے ظاہری طور پر امریکہ اور روس مد مقابل نہ ہوتے لیکن کسی چھوٹے ملک پر کوئی ایک حملہ کرتا اور اس کے میدان پر دو گروپ بنا کر لڑتے۔ دنیا کے ملکوں کو ڈرا دھمکا کر یا پیسوں سے ورغلا کر اپنے اپنے بلاکس میں شامل کرتے۔
ان کا طریقہ واردات بڑا کمال کا ہے۔ جو اللہ تعالی نہ سورت البقرہ میں پہلے ہی بتا دیا ہے کہ میڈیا کا سہارا لے کر ملک میں دو دھڑے بناتے ہیں ان کو آپس میں لڑواتے ہیں اور پھر خود مصلح یعنی اصلاح کرنے والے بن کر اس ملک میں فوجیں اتار دیتے ہیں اور پھر اپنے مخالفین کو بے دریغ قتل کرتے ہیں اور اس ملک کے وسائل کو ہڑپ کرتے ہیں۔ اللہ تعالی تو پہلے ہی فرماتے ہیں کہ یہ کہتے ہیں ہم مصلح ہیں حالانکہ خبردار یہی لوگ مفسد ہیں یعنی فساد پھیلانے والے ہیں جبکہ تم شعور نہیں رکھتے (ہم شعور اس لیے نہیں رکھتے کیونکہ وہ میڈیا کے ذریعے ہمارے دماغ میں ڈال دیتے ہیں کہ فلاں دہشت گرد ہے اور ہم مصلح ہیں)
اسی طرح روس نے افغانستان میں پہلے ٹھیک ٹھاک سرمایہ کاری کی۔ افغانستان میں اس وقت بادشاہت تھی۔ حکومت الٹی تو حالات خراب ہو گئے۔ کمیونسٹ پارٹی کا سربراہ جو درحقیقت روس کا بندہ تھا یعنی اس کے اشاروں پر ناچتا تھا اس نے روس سے مدد مانگ لی۔ روس تو چاہتا ہی یہ تھا کیونکہ سب حالات خراب ہی اس نے کروائے تھے۔ روس ایسا اس لیے چاہتا تھا کیونکہ روس کی آج سے برسوں پہلے لکھی گئی خارجہ پالیسی یعنی ملک کے باہر کے معاملات کس طرح چلانے ہیں کس کے ساتھ دوستی رکھنی ہے کس کے ساتھ دشمنی۔۔۔ کس کے ساتھ جنگ کرنی ہے جبکہ کس کی مدد کرنی ہے ایک ملک کی اس پالیسی کو خارجہ پالیسی کہتے ہیں میں لکھا تھا کہ گرم پانی تک پہنچنا روس کی اکانومی کو دنیا کی سب سے بڑی اکانومی بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اب گرم پانی کیا ہے؟؟ اور افغانستان پر اربوں ڈالر اجاڑنے کے پیچھے روس کے کیا مفادات تھے؟ یہ انشاءاللہ اگلے پارٹ میں ۔۔۔
No comments:
Post a Comment