محاصرہ ادرنہ The Siege of Aderna - Prof. Hamza

Thursday, July 23, 2020

محاصرہ ادرنہ The Siege of Aderna

اپنے اسلاف کو جانیں
یورپ کے بلقانی حلقے میں جب حق و باطل کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور بلقانی ریاستوں بلغاریہ، سرویہ، رومانیہ اور یُونان نے تُرکی پر حملہ کردیا تو مجبوراً ترکی کو بھی اپنی حفاظت کے لیے میدانِ جنگ میں آنا پڑا۔ عیسائی فوجوں نے تُرکی کی اسلامی فوج کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ گویا صلیب کے گردو غبار نے چاند کے گرد حلقہ ڈال لیا۔ غازی شکری پاشا بلغاریہ اور سرویہ کی متحدہ یورش کا مقابلہ کرنے کے لیے ادرنہ کے محاذ کا سپہ سالار تھا۔ جب تُرکی فوجیں دشمن کے حملے کی تاب نہ لاسکیں تو شکری پاشا ادرنہ کے قلعے میں داخل ہوگیا اور بلغاریہ اور سرویہ کی فوجوں نے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔ شکری پاشانے پانچ ماہ تک بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ مدافعت کی، مگر قلعے میں مسلمان غازیوں کے لیے رسد اور سامان خوراک کے جو ذخیرے جمع تھے، وہ آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔ باہر سے کمک یا سامانِ رسد پہنچنے کی کوئی اُمید نہیں تھی۔

مجبور ہو کر شکری پاشا نے مارشل لا نافذ کردیا۔ اس فوجی قانون کے تحت خوراک کے وہ تمام ذخیرے قبضے میں لیے گئے جو لوگوں کے گھروں میں موجود تھے۔ سلطانی فوج رعایا سے غلّہ حاصل کرنے پر مجبور ہوگئی گویا شاہین دانے کے لیے چڑیا سے بھیک مانگنے لگا۔

شہر کے مفتی نے جب یہ بات سُنی تو اسے اتنا غصہ آیا گویا کہ وہ طور کی بجلی معلوم ہورہا تھا۔ اُس نے کہا جن غیر مسلموں کی حفاظت کا ذمّہ مسلمانوں نے اٹھارکھا ہے، اُن کا مال مسلمان لشکر کے لیے حرام ہے۔ شہر کے مفتی کا یہ فتویٰ سارے ادرنہ میں پھیل گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ترک فوج یہودیوں اور عیسائیوں کے گھروں کے مال، و اناج اور دیگر سامان خوردنوش کو ہاتھ بھی نہیں لگاتی تھی۔ اس لیے کہ خدا کا حکم یہی تھا کہ جن غیر مسلموں کی حفاظت کا ذمہ مسلمانوں نے اٹھا رکھا ہے، اُن کا مال اُن کی مرضی کے بغیر قبضے میں نہیں لیا جاسکتا۔ جب خدا کا حکم سامنے آجائے تو مسلمان نفع اور نقصان کے خیال کو دل سے نکال کر بے اختیار خُدا کے حکُم کے سامنے جھُک جاتا ہے۔

علّامہ اقبالؒؒؒ نے یہ نظم اس غرض سے لکھی تھی وہ ترکوں کی سیرت اور کردار کا ایک روشن پہلو دُنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔ وہ ایک طرف تو یہ بتانا چاہتے تھے کہ اسلام کسی حالت میںبھی حق و انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔ دوسری طرف وہ ترکوں کے اسلامی جذبے اور دینی شان کو نمایاں کرنا چاہتے تھے۔ محاصرہ ادرنہ کے دوران میں پیش آنے والے اس واقع سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس گئے گزرے دور میں اور انتہائی مجبوری کی حالت میں بھی تُرکوں کے دلوں میں اسلامی شریعت کے احکام کا کس قدر پاس تھا۔ محاصرے کی حالت میں جب کہ اُنھیں باہر سے کوئی کمک یا رسد ملنے کی اُمید نہ تھی، شہر کے گھروں میں موجود اناج کا ایک ایک دانہ اُن کی ضرورت تھا لیکن جب مفتی ِشہر نے فتویٰ جاری کیا تو ترک فوج نے اس کی پوری پوری تعمیل کی۔ انھوں نے بھوک کی تکلیف تو برداشت کرلی لیکن یہودی اور عیسائی رعایا کے مال اور اناج کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ غازی شکری پاشا نے پانچ ماہ تک بلغاریہ اور سرویہ کی فوجوں کا مقابلہ جاری رکھا تھا۔ مزید مقابلہ اُن کے لیے ممکن نہ تھا۔ ۲۵مارچ ۱۹۱۳ء کو دشمن نے آخری حملہ کیا اور صرف ایک دن میں تیس ہزار گولے ادرنہ پر پھینکے ۲۶مارچ ۱۹۱۳ء کو غازی شکری پاشا نے ہتھیار ڈال دیے۔ غازی شکری پاشا اور اُن کے ماتحت سالار قید ہوگئے اور دشمن اُنھیں ادرنہ سے بلغاریہ کے دارلحکومت صوفیہ لے گیا۔

تُرکوں نے ادرنہ کے محاصرہ کے دوران میں شریعتِ اسلامی کے احکام کی بلاچوں و چرا تعمیل کرکے جس غیر معمولی ایثار کا ثبوت دیا تھا، قدرت کی طرف سے اُنھیں اس کا صِلہ چند ماہ بعد ہیں مل گیا۔ بلقانی ریاستوں میں پھوٹ پڑی اور وہ آپس میں لڑنے لگیں تو غازی انور پاشا تھوڑی سی تُرک فوج لے کر بڑھے اور یکا یک ادرنہ پر قابض ہوگئے۔ اس طرح ادرنہ جو مارچ ۱۹۱۳ء میں ترکوں کے ہاتھ سے نکل گیا تھا، جولائی ۱۹۱۳ئمیں دوبارہ ترکوں کے قبضے میں آگیا۔

آج کل ادرنہ جمہوریہ ترکیہ کا ایک مشہور شہر ہے۔محاصرہ ادرنہ کے دوران پیش آنے والے جس واقعے کو علّامہ اقبالؒؒ نے اپنی نظم کا موضوع بنا کر ترکوں کی دینی شان کو خراجِ عقیدت پیش کیا تھا، اُس کی یاد تُرکوں کے دلوں میں آج بھی تازہ ہے۔ اور شاید ہمیشہ تازہ رہے گی
حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اپنے مجموعۂ کلام بانگ درا میں محاصرۂ ادرنہ نامی نظم میں اس شہر کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے :
يورپ ميں جس گھڑی حق و باطل کی چھڑ گئی

حق خنجر آزمائی پہ مجبور ہو گيا

گرد صليب گرد قمر حلقہ زن ہوئی

شکری حصار درنہ ميں محصور ہو گيا

مسلم سپاہيوں کے ذخيرے ہوئے تمام

روئے اميد آنکھ سے مستور ہو گيا

آخر امير عسکر ترکی کے حکم سے

'آئين جنگ' شہر کا دستور ہوگيا

ہر شے ہوئی ذخيرہ لشکر ميں منتقل

شاہيں گدائے دانۂ عصفور ہو گيا

ليکن فقيہہ شہر نے جس دم سنی يہ بات

گرما کے مثل صاعقہ طور ہو گيا

ذمی کا مال لشکر مسلم پہ ہے حرام

فتویٰ تمام شہر ميں مشہور ہو گيا

چھوتی نہ تھی يہود و نصاریٰ کا مال فوج

مسلم، خدا کے حکم سے مجبور ہوگيا

No comments:

Post a Comment