سلطان صلاح الدین ایوبی کون تھے؟ - Prof. Hamza

Saturday, August 21, 2021

سلطان صلاح الدین ایوبی کون تھے؟

سلطان صلاح الدین ایوبی کون تھے؟ فرانسیسی جنرل نے پہلی جنگ عظیم کے موقع پر شام میں موجود سلطان کی قبر پر لات کیوں ماری؟ بیت المقدس، ہیکل سلیمانی اور مسجد اقصٰی میں کیا فرق ہے؟ مسلمانوں کی کن غفلتوں کی وجہ سے بیت المقدس ہم سے چھن گیا؟ سلطان نے مسجد اقصٰی کو کیسے آزاد کروایا ؟ آئیے جانتے ہیں.... دوستوں بیت المقدس فلسطین کے شہر یروشلم میں واقع ایک 35 ایکڑ جگہ کو کہتے ہیں جہاں دنیا کے تین بڑے مذاہب یہودی، عیسائی اور مسلمانوں کے مقدس مقامات ہیں. جیسا کہ آپ کو پہلے بتا چکے ہیں کہ اس جگہ کو سب سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام نے آج سے تقریباً 3000 سال پہلے تعمیر کروایا تھا. اس جگہ آپ علیہ السلام نے ایک عظیم الشان عبادت گاہ تعمیر کروائی جسے ہیکل سلیمانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. آپ علیہ السلام کے جانے کے بعد ہیکل سلیمانی کو کئی بار تباہ کیا گیا جن میں سے مشہور واقعہ بابل کے حکمران بخت نصر کا ہے جس نے پورے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی. ہیکل سلیمانی تو تباہ ہو گیا اور آج صرف اس 35 ایکڑ کے کمپاؤنڈ کے مغربی طرف صرف ایک دیوار باقی ہے جو یہودیوں کے مطابق اسی ہیکل کی ہے. اس دیوار کو دیوار گریہ کہتے ہیں. چونکہ گریہ کا مطلب رونا دھونا ہوتا ہے اس لیے یہود بھی وہاں جا کر رونے کو مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں. اس دیوار کے علاوہ اس پینتیس ایکڑ میں یہود کے لیے کوئی عبادت گاہ نہیں البتہ ان کے عقیدے کے مطابق تابوت سکینہ (اس کے بارے میں پھر کبھی تفصیل سے لکھیں گے) اسی پینتیس ایکڑ کے رقبے پر کہیں موجود ہے جو قرب قیامت یعنی آخری زمانے میں خود بخود ظہور پذیر ہو گا جس کے بعد دنیا بھر میں یہود کا راج ہو گا... عیسائیوں کے لیے یہ جگہ اس لیے مقدس ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت بھی یروشلم کے قریب ہی ہوئی. اس 35 ایکڑ کے رقبے میں عیسائیوں کا ایک چرچ ہے جو دیوار گریہ سے چند قدم کے فاصلے پر ہے. عیسائیوں کے نزدیک آخری زمانے میں حضرت عیسٰی علیہ السلام جب دوبارہ نازل ہوں گے تو یہیں پڑاؤ کریں گے. مسلمانوں کی یہاں دو مساجد ہیں. عموماً سنہری گنبد کو ہم مسجد اقصٰی کا گنبد سمجھتے ہیں لیکن ایسا نہیں. اس پینتیس ایکڑ کے رقبے میں بالکل درمیان میں جو سنہری رنگ کا گنبد ہے وہ دراصل قبۃ الصخری یا Dome of the Rock کہلاتا ہے اور ایک مسجد ہے. جبکہ اس کے جنوب کی طرف جو سرمئی رنگ کی مسجد ہے وہ مسجد اقصٰی کہلاتی ہے. یہ تو اس بات کی وضاحت تھی کہ مسجد اقصٰی ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس وغیرہ کیا ہیں... اب آتے ہیں اس سوال پر کہ مسلمانوں نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں 640ء میں جب بیت المقدس فتح کر لیا تھا تو ٹھیک 459 سال بعد یعنی 1099 میں کیوں بیت المقدس ہم سے چھن گیا! اس وقت کیا حالات تھے؟ اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے کیسے 1187 یعنی 88 سال بعد دوبارہ بیت المقدس فتح کیا؟ تو دوستوں سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے بعد مسلمانوں پر تقریباً سو سال بنو امیہ نے حکومت کی. اس کے بعد بنو عباس کی حکومت شروع ہوئی. تقریباً 900ء کے قریب عباسی سلطنت کمزور ہو گئی ترکی کے جو علاقے فلسطین کو لگتے ہیں اس وقت عیسائیوں کے ماتحت تھے اس لیے حملہ آسانی سے ہو گیا. اور عیسائیوں نے جلد از جلد اپنا دفاع بھی مضبوط کر لیا. انہوں نے جافہ شہر پر بھی قبضہ کر لیا تاکہ مصر سے کوئی اسلامی فوج ڈائریکٹ یروشلم کی مدد کو نہ پہنچ سکیں. عیسائیوں نے یروشلم میں فتح کے بعد خوب تباہی مچائی. عورتوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا گیا. گلی گلی لاشیں بکھری پڑی تھیں. اس واقعے کے بعد عیسائیوں نے Knight Templars نامی ایک تنظیم بنائی جنہوں نے کسی بھی طریقے سے یروشلم کا دفاع کرنا تھا. انکی سخت ترین ٹریننگ ہوتی تھی. ان کے فرائض میں مسلمان حکمرانوں کی جاسوسی اور مسلمانوں کو اندر سے کمزور کرنا تھا. آئیے جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا کچھ کیا... اب مسلمانوں کے علاقے پر ایک حکمران کی بجائے کئی حکمران بن گئے. مثلاً مصر پر حکومت کسی کی ہے اور شام پر کسی اور کی. خراسان اور ایران پر بھی مختلف حکمران تھے. اس تقسیم اور مسلمانوں کی اس وقت جاری آپسی لڑائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عیسائیوں نے اپنے پوپ کے حکم سے فلسطین پر حملہ کر دیا. اس وقت فلسطین مصر کی فاطمی خلافت کے ماتحت تھا. فاطمی خلافت اپنی مختلف عقائد کی وجہ سے اکثر کسی نہ کسی مسلم سلطنت سے لڑتی رہتی تھی. اس وقت بھی فلسطین کا علاقہ خالی تھا اور ساری فاطمی فوج شام میں برسرِ پیکار تھی. اس زمانے میں میں تمام یورپی حکمران پوپ کی بات بہت مانتے تھے. یاد رہے کہ فلسطین جس مقام پر ہے اس کے ایک طرف شام اور دوسری طرف ترکی ہے... مسلمان حکمرانوں کے حرم میں خوبصورت عیسائی لڑکیاں بھیجی جاتیں جو مسلمانوں کا روپ دھار کر سلطان کی ایک ایک خبر عیسائیوں کو پہنچاتیں. مسلمانوں کی مساجد میں جعلی علماء کرام بھرتی کیے گئے جو درحقیقت ایجنٹ ہوتے یہ لوگ صوفی ازم کا روپ دھار کر جہاد کے خلاف لیکچر دیتے. مسلمان نوجوانوں کو زنا کی طرف مائل کرواتے. سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب مصر کی حکومت سنبھالی تو یہی صورتحال تھی کہ حکمران و امراء عیاشی میں پڑے تھے اور عوام الناس غیر اسلامی حرکات میں جنہیں صوفی ازم کا نام دیا جاتا.. بقول اقبال۔ مسلمان ہے توحید میں گرم جوش مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش سلطان نے شروع میں اتحاد امت کے لیے جدوجہد کی مگر پوری اسلامی دنیا میں صرف ایک شخص شام کے حکمران نورالدین زنگی نے آپ کا ساتھ دیا. آپ مسلمان نوجوانوں کو فحاشی سے دور رکھنے کی جدوجہد کرتے. سلطان نے دشمن کی ہر چال کا جواب اسی طرح دیا. مثلاً آپ نے ایک مضبوط انٹیلیجنس ایجنسی تشکیل دی جس کے سربراہ علی بن سفیان جیسے زیرک انسان تھے. عیسائیوں کی جاسوسی کو ناکام بنایا گیا. جاسوسوں کو پکڑ کر عبرت ناک سزائیں دی گئی. مسجدوں میں علماء کرام کی سخت سکروٹنی کے بعد اپوائنٹمنٹ ہوتی. عیاش امراء کو فارغ کر دیا گیا. سلطان نے ان مسلمان حکمرانوں سے بھی جنگ لڑی جو صرف لالچ میں آ کر عیسائیوں کی مدد کرتے... آپ نے تقریباً بیس سال اندر کی صفائی کی. پھر فلسطین پر حملہ کرنے کی ٹھان لی. عیسائیوں کو جب یہ خبر پتا چلی تو وہاں کھلبلی مچ گئی. آپ نے جنگ کی کمال پلاننگ کی. آپ کے جنگ لڑنے کا طریقہ کار بہت بے مثال تھا. ان میں سے چند اقدامات درج ذیل ہیں. 1۔ سلطان دشمنوں کے سامان رسد پر حملہ کر کے آگ لگوا دیتے تاکہ دشمن بغیر سامان کے زیادہ دیر نہ لڑ سکے. 2۔ آپ دشمنوں میں جاسوسوں کے ذریعے کئی افواہیں پھیلا دیتے جس سے دشمن کنفیوز ہو جاتا. مثلاً جب سلطان نے حملہ کیا تو سارے عیسائی جس شہر میں اکٹھے ہوئے ایک جھوٹی خبر سن کر سلطان نے اس کے برعکس ایک دوسرے شہر پر قبضہ کر لیا... 😁 مسلمانوں کے ہاتھوں یروشلم کی فتح کے بعد یورپ میں آگ لگ گئی. سلطان کو شیطان کہا جانے لگا. کوئی اسے خون کا پیاسا کہنے لگا. پادریوں نے سلطان کے متعلق من گھڑت ظلم و ستم کے واقعات لوگوں کو سنائے. آخر خوب چندہ اکٹھا ہوا جس کا نام ہی Saladin Funds رکھا گیا. یورپ کے تمام حکمران مل کر جن کا سربراہ انگلینڈ کا جوان بادشاہ رچرڈ اول یا شیر دل تھا. لیکن یروشلم کا دفاع سلطان نے کر لیا. آخر کار مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان صلح ہوگئی جس کے بعد یروشلم مسلمانوں کے ماتحت آ گیا اور عکا کا شہر عیسائیوں کے ماتحت چلا گیا. 3۔ آپ دشمن کو اپنے پیچھے لگاتے جب وہ تھک جاتا تو اپنے مطلوبہ علاقے میں لے جا کر دونوں طرف سے حملہ کر دیتے.. اس کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے. سلطان نے یروشلم فتح کر لیا بغیر جنگ کے کیونکہ یروشلم کے محافظوں نے سلطان سے معاہدہ کر لیا. سب کو امان اور مذہبی آزادی دی گئی.پھر بھی اگر کوئی یروشلم میں نہ رہنا چاہے وہ ایک خاص رقم دینے کے عوض کہیں بھی جا سکتا تھا. ستم ظریفی دیکھیے کہ عیسائی امراء خود تو رقم دے کر چلے گئے بلکہ مذہبی و سیاسی راہنما اونٹوں پر لاد لاد کر اپنی دولت بھی لے گئے مگر غریب عیسائیوں کو لاچار چھوڑ گئے. پھر تاریخ نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ فاتح شہر خود ان غریبوں کا تاوان بھر ان کو رہا کروا رہا تھا.. ان جنگوں کو صلیبی جنگیں Crusade کہا جاتا ہے کیونکہ عیسائیوں نے ایک صلیب اٹھائی ہوتی تھی. پھر 1187 سے 1974 تک بیت المقدس مسلمانوں کے کنٹرول میں رہا. پھر اسرائیل نے اس علاقے پر قبضہ جما لیا اور آج ان کا دارالحکومت ہے اس کے پیچھے جو وجوہات تھیں وہ میں کل بتا چکا ہوں. سبق یہ ہے کہ جو ہتھکنڈے سلطان کے دور میں استعمال کیے گئے وہی آج استعمال ہو رہے ہیں یعنی فحاشی و لالچ.. مسلمانوں کو آپس میں لڑانا... لیکن سلطان نے بھی جلد بازی نہیں دکھائی بلکہ ایک پورے پروسیجر سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوا. سلطان کی زندگی آج کے دور میں مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے... سلطان کو تقریباً بیسویں صدی یعنی 800 سال تک یورپ میں گالیاں دی جاتی رہیں مگر بعد میں جب سلطان پر سنی سنائی باتوں کی بجائے ریسرچ کی گئی تو سلطان یورپ میں ہیرو بن گیا حتیٰ کہ ناروے اور سویڈن میں 2 اکتوبر کو Saladin Dayمنایا جاتا ہے. میں نے یہ تمام انفارمیشن درج ذیل کتابوں سے لیں اگر کسی دوست کو شوق ہے تو لازمی پڑھیں. 1۔ داستان ایمان فروشوں کی 2۔ The life and Legend of Saladin 3۔ Muslim Empires پہلی اردو کی کتاب آپ کو Play store سے بھی مل جائے گی..

No comments:

Post a Comment