#اپنےہیروکوپہچانیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان میں جگہ جگہ ہنگامے پھوٹ پڑے۔ لوگوں کی املاک کا نقصان ہو رہا تھا۔ سینکڑوں لوگ قتل ہو چکے تھے۔ مولوی جی بھر کر ولیم میور کو گالیاں دے رہے تھے جس نے "لائف آف محمد" کتاب لکھی تھی۔ یہ بات ہے انیسویں صدی کے وسط کی۔ اس وقت برطانیہ نے ابھی چند سال پہلے ہندوستان میں اپنا اقتدار شروع کیا تھا جس وجہ سے برطانوی عوام کا ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ پہلی دفعہ انٹرایکشن ہوا۔ اسلام اور مسلمانوں کو جاننے کی جستجو ان کے من میں جاگی تو ایک انگریز ولیم میور جو کہ کلکتہ میں آفیسر رہ چکا تھا نے ایک کتاب لکھی جو برطانیہ بھر میں مشہور ہوئی۔ یہ کتاب مسلمانوں کے نزدیک گستاخانہ الفاظ سے بھرپور تھی اور اسلام کی صحیح طور پر ترجمانی نہیں کرتی تھی۔ اس وقت دو شخصیات نے ایسا کمال کر دکھایا جس کا نتیجہ آج بھی واضح ہے۔ پہلی شخصیت سید امیر علی تھے جنہوں نے اپنی مشہور زمانہ "دی سپرٹ آف اسلام" کتاب لکھی جو اسلامی تعلیمات اور تاریخ پر مبنی پہلی انگریزی میں جامع کتاب تھی۔ انہوں نے زرکثیر خرچ کر کے پورے برطانیہ میں اس کتاب کو بانٹا اور برطانوی عوام کو حقیقی اسلام سے روشناس کروایا۔ دوسری شخصیت سر سید احمد خاں ۔۔۔ جنہوں نے اپنے بیٹے سید محمود سے مل کر برطانیہ کا ہنگامی دورہ کیا اور اس کتاب کے جواب میں اپنی "دی لائف آف محمد" لکھی۔ اس کی پبلشنگ کے لیے سر سید نے اپنی آبائی جاگیر بیچ دی اور گھر کا زیور بیچنے سے بھی گریز نہ کیا۔ لیکن دونوں باپ بیٹوں نے چند ماہ میں اس کی لاکھوں کاپیاں چھپوا کر برطانیہ اور ہندوستان میں بانٹ دیں۔سر سید کے بیٹے کا بیان ہے کہ جب تک میرے والد صاحب نے ولیم میور کی گستاخی کا جواب نہ دے دیا میں نے ان کو کبھی رات کو چین سے سوتا نہیں دیکھا۔ ان کتب کی بدولت برطانوی عوام حقیقی اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے آشنا ہوئی اور اسلام کو ایک عظیم دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عظیم ریفارمر کے طور پر دیکھنی لگی اور آج تک ایسا ہی چلتا آرہا ہے (مسلمانوں کے ساتھ مفادات کی خاطر لڑائی کو پیش نظر نہ رکھا جائے)
کوئی سر سید ہو، راہ علم و فن پہ ڈال دے
قوم کو کافر سے ٹکر لینے وہ چال دے
No comments:
Post a Comment