جمعۃ المبارک کے موقع پر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی نعت کے ایک مشہور شعر کی تشریح پیش خدمت ہے:
عالمِ رنگ و بو میں ترے ظہور سے فروغ
ذرّہِ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب
اقبال اس شعر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کائنات میں جتنا بھی فروغ ہے رونق ہے چہل پہل ہے اضافہ ہو رہا ہے یہ سب کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونے سے ہے. وہ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا. جیسا کہ احمد رضا خان بریلوی کہتے ہیں :
وہ جو نہ تھے، تو کچھ نہ تھا، وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے!
دوسرے مصرعے میں اقبال لکھتے ہیں کہ ذرّہِ ریگ یعنی ریت کے ذرے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمال تربیت سے آفتاب یعنی سورج جیسا چمکدار اور شاندار بنا دیا. بقولِ شاعر:
ذرّہ قدموں کا تیرے چاند ستارے جیسا....
کوئی آیا نا زمانے میں تمہارے جیسا....❤️
وہی عرب جو تہذیب و تمدن کے لحاظ سے پوری دنیا کی قوموں سے پیچھے تھے وہی چند سالوں میں عالمِ افق پر چھا گئے اور زمانے کو اپنا گرویدہ بنا دیا. آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں بھی ان کی مثالیں دی جاتی ہیں.. بزبانِ حالی:
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھڑا اور کھوٹا الگ کر دکھایا...
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں ان کی کایا
No comments:
Post a Comment