ابنِ انشاء (اردو کے ممتاز مزاح نگار) کہتے ہیں کہ ایک شخص کی بھینس کو اپھارہ ہو گیا. جب کچھ افاقہ نہ ہوا تو کسی نے بتایا کہ فلاں شخص کی بھینس کو بھی اپھارہ ہوا تھا آپ ان سے مشورہ لیں. جب وہ شخص اس کے پاس گیا تو پوچھا کہ جناب جب آپ کی بھینس کو اپھارہ ہوا تھا تو آپ نے کیا کیا؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے ایک کلو کاسٹک سوڈا پانی میں بھگو کر پلا دیا. اب وہ شخص واپس اپنے گاؤں گیا اور بھینس کو کاسٹک سوڈا پلا دیا لیکن اس کی بھینس مر گئی. وہ پریشان حال پھر اس شخص کے پاس گیا اور بتایا کہ میری بھینس تو کاسٹک سوڈا پینے کے بعد مر گئی. تو اس سیانے بندے نے کہا کہ "مر تو میری بھینس بھی گئی تھی" 😁
اب یہی حال ان مسلمانوں کا ہے جو مغربی ماحول کو اپنانے کا کہتے ہیں تا کہ انسان زندگی خوشی سے گزار سکے. لیکن جو اہلِ مغرب نے اپنی فہم و فراست سے ایک نظامِ زندگی رائج کیا اس کے بھیانک نتائج نکل رہے ہیں. انہوں نے عورت کے تحفظ کے لئے نام نہاد جو اقدامات اٹھائے اس سے الٹا مغربی خواتین کا پہلے سے زیادہ استحصال ہونا شروع ہو گیا. لوگ ڈپریشن کا شکار ہو گئے ریپ کی شرح ان میں بے تحاشا ہے. خود کشیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے. ملالہ صاحبہ نے جو مشورہ دیا ہے کہ شادی کی بجائے بس ناجائز تعلقات ہی ٹھیک ہیں اس پر عمل کی وجہ سے مغرب میں نوجوان نسل کم ہو گئی ہے. وہ اپنی عوام کے ترلے کر رہے ہیں کہ خدارا شادی کریں اور بچے پیدا کریں ملک میں کام کرنے والے کم ہونے کا خدشہ ہے..
یہ تو صاف بات ہے کہ انسان ناقص العقل ہے اور اللہ کی ذات تمام علوم کی منبع ہے. مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری یونیورسٹی کی نوجوان نسل کو کارل مارکس، روسو، لینن، سگمنڈ فرائیڈ اور نطشے وغیرہ کے نظریات تو پڑھائے جاتے ہیں مگر قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا ان سے گوارہ نہیں ہوتا. اللہ پر اعتقاد اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ اگر ایک طرف اللہ کا صریحاً حکم موجود ہے مگر دوسری طرف کوئی مغربی فلاسفر کا نظریہ ہے تو یہ اس کے گن گاتے ہیں. دنیا جانتی ہے کہ ہر لحاظ سے ایک مثالی کامیاب معاشرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں قائم ہوا جس کی انسانی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی.
تو دوستوں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہ جانیں کہ مغرب والوں نے بھینس بچانے کے حربے استعمال کیے ان سے انکی بھینس بچنے کے بجائے مر چکی ہے اور اب ان جیسے لوگ ہماری بھی بھینس مروانا چاہتے ہیں. دوسرے نمبر پر آج کے دور میں اس چیز کی ضرورت ہے کہ جیسے مفتی تقی عثمانی صاحب نہایت آسان الفاظ میں بتاتے ہیں کہ کیسے اسلامی معاشی نظام، کیپٹلزم اور سوشلزم سے بہتر ہے اسی طرح اسلام کے باقی نظاموں خصوصاً سیاسی نظام کا تقابلی جائزہ عوام تک پہنچایا جائے تاکہ ان جیسے لوگوں سے بچا جا سکے.
اللہ تعالیٰ ہماری اس پرفتن دور میں ایمان کی حفاظت فرمائے آمین!
No comments:
Post a Comment