کیا واقعی سلطان صلاح الدین ایوبی نے اقتدار سنبھالتے ساتھ ہی فلسطینی مسلمانوں کو عیسائی حکمرانوں سے نجات کے لیے جہاد شروع کر دیا؟
محمد بن قاسم ایک عورت کی پکار پر فوراً سندھ پر حملہ آور ہو گیا؟
آئیے جانتے ہیں...
آدھا علم، لاعلمی سے زیادہ نقصان دہ ہے. ہماری بیشتر عوام تین تین گھنٹے کی مووی دیکھ لے گی مگر کبھی وقت نکال کر اپنے ہیروز کی تاریخ پڑھنے کی زحمت نہیں کریں گے تاکہ ان کے نقش قدم پر پر چلا جا سکے..
دوستوں جیسا عموماً ہمارے ذہن میں نقش ہے کہ سلطان نے تلوار اٹھی اور جنگ پر روانہ ہو گیا ایسا بالکل نہیں. انہوں نے اس وقت کے تمام دنیاوی تقاضے پوری کر کے حملہ کیا...
سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1174 میں مصر کا اقتدار سنبھالا لیکن فلسطین پر حملہ 1187 میں کیا. اس 13 سال کے دوران آپ نے جو اقدامات کئے. آئیے وہ جانتے ہیں..
جب سلطان نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت بھی فلسطینی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا تھا مگر آپ نے بےوقوفوں کی طرح فوراً حملہ نہیں کیا بلکہ پہلے بہت سے اقدامات کئے کیونکہ اسلام کی تعلیمات بھی یہی ہیں.
سلطان کے اقدامات
1۔ جب سلطان نے مصر کی حکومت سنبھالی تو مصر کے اندرونی حالات بہت خراب تھے. حکومتی عہدیدار کرپشن اور شراب نوشی کے عادی تھے. علماء فرقہ واریت پھیلا رہے تھے جن کے بڑوں کو باقاعدہ اس عمل کی فنڈنگ ہوتی تھی. معیشت انتہائی ناگفتہ بہ تھی. عوام بے حیائی میں ملوث تھے. مصر کے ہمسایہ ملک سوڈان کے قبائلی مصری سلطنت کے لیے مستقل خطرہ تھے. کیا ہوا؟ پاکستان جیسے حالات لگے؟ ابھی سہم جائیں کیونکہ جو آپ روزانہ دعا مانگتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں صلاح الدین جیسا لیڈر عطا فرما! سنیں صلاح الدین نے کیسے صفایا کیا!
معذرت کے ساتھ اگر آج سلطان جیسا حکمران پاکستان میں آ گیا تو اسرائیل کے ساتھ جو ہو گا وہ بعد کی بات ہے مگر ہم جن اعمال میں مبتلا ہیں پہلے ہمیں وہ سیٹ کرتا.. سلطان نے سینکڑوں علماء کو سخت سزائیں دیں. حکومتی عہدیداروں کو قتل تک کی سزائیں دی گئیں. امام مسجد کو سخت سکروٹنی کے بعد عہدہ دیا جاتا. بے حیائی کرپشن اور فرقہ واریت پھیلانے پر سخت سزائیں دی گئیں...
2۔ فلسطین میں محکوم مسلمانوں کو جاسوسوں کے ذریعے اسلحہ پہنچایا گیا تاکہ جب حملہ ہو تو اندر سے یہ بھی مدد مل سکے.
2۔ عیسائیوں کو جس حکمران سے سمندر کے ذریعے مدد ملتی تھی اسکے فلسطین کے حکمران سے تعلقات خراب کر دیے تاکہ جنگ کے دوران وہ کوئی مدد نہ پہنچائے.
3۔ فلسطین کے بڑے عیسائیوں کے درمیان جاسوس پھیلا دیے جنہوں نے افواہیں پھیلا کر انہیں پریشان کر دیا.
4۔ ارد گرد کے قبائل کو اپنے ساتھ ملا لیا.
5۔ فلسطین میں دو قلعے بہت اہم تھے ایک قلعہ شوبک دوسرا قلعہ کرک. مسلمانوں کو یروشلم پر حملہ کرنے کے لیے ان میں سے کسی ایک پر قبضہ ضروری تھا. سلطان نے اپنے جاسوسوں کے ذریعے افواہ پھیلا دی کہ سلطان پہلے قلعہ شوبک پر حملہ کرے گا. جب زیادہ تر صلیبی قلعہ شوبک میں جمع ہو گئے تو حملہ قلعہ کرک پر کر دیا.
6۔ یروشلم شہر بھی فتح کرنے میں جاسوسوں نے کلیدی کردار ادا کیا جنہوں نے کئی سال لگا کر یہ راہ ہموار کی تھی.
جب یورپ میں پتا چلا کہ یروشلم ہاتھوں سے نکل گیا تو وہاں صفِ ماتم بچھ گیا. تمام یورپی ممالک انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ کی قیادت میں فلسطین پہنچے. ایک زبردست معرکہ ہوا. رچرڈ بہت بہادری سے لڑا. جنگ کے بعد صلح ہو گئی کیونکہ سلطان صلاح الدین اور رچرڈ ایک دوسرے کی شخصیات سے بہت متاثر ہوئے. اس معاہدے کے تحت فلسطین کا ساحلی شہر عکا عیسائیوں کو مل گیا جبکہ یروشلم مسلمانوں کے پاس رہا مگر عیسائیوں کے لیے یروشلم کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے. سلطان نے عیسائیوں کو یروشلم میں عبادت کے لئے آنے پر مکمل سہولیات دینے کا وعدہ کیا. چرچ کی بھی تعمیر نو کی گئی.
تو دوستوں واقعی سلطان نے اقتدار سنبھالتے ہی جہاد شروع کر دیا مگر جہاد کا مطلب یہ نہیں کہ تلوار اٹھاؤ اور چڑھ دوڑو. پاکستان بھی فوراً اسرائیل کے خلاف اعلان جہاد کرے. جس کے پہلے اقدامات یہ ہوں گے کہ ہم تمام ان کاموں سے اجتناب کریں جو ملک و قوم کی کمزوری کا باعث بنتے ہیں جیسا کہ کرپشن، فرقہ واریت، دھوکہ دہی وغیرہ..
ڈپلومیسی اور جاسوسی سمیت موجود دور کے تمام ہتھیار استعمال میں لائے جائیں.
اللہ تعالیٰ اسلام کو پھر سربلندی عطا فرمائے آمین!
No comments:
Post a Comment