یہاں ایک حرف پہ کشتنی، وہاں لاکھ عذر تھا گفتنی (پیڑٰی جنانی)
چونکہ اس صحافی نے پیپلز پارٹی جو کہ سندھ کی بادشاہی جماعت ہے اس کے کارنامے کھولے تھے اس لیے اس کا قتل واجب تھا۔ پیپلزپارٹی لبرل جماعت ہے وہ غلط کر ہی نہیں سکتی۔ کسی لفافہ صحافی نے اس کے قتل پر ایک ٹویٹ تک نہ کی۔ اور نہ ہی کسی جج نے ہمت کی کہ کوئی ایکشن لے لیں۔ مطیع اللہ جان صاحب سب کو پتا ہے کہ نظریہ پاکستان کے خلاف بھی لکھ چکے ہیں۔ یہ فضول سا الزام ہے کہ ایجنسیوں کے خلاف لکھتے تھے اس لیے اٹھائے گئے۔ فیس بک ہزاروں ن لیگ اور پیپلزپارٹی بمعہ لبرلز کے سوشل میڈیا پیجز آرمی کے خلاف پوسٹس کرتے ہیں۔ لاکھوں صارفین کھل کر کسی بھی جنرل کا نام لے کر ڈائریکٹ تنقید کر سکتے ہیں ان کو فوج کیوں نہیں اٹھاتی؟؟؟ اصل میں یہ سب وہ عورت ہیں جنہیں پنجابی میں پیڑی جنانی (بری عورت) کہا جاتا ہے جو اپنے شوہر کے خلاف پورا گھنٹہ بول کر کہتی ہے کہ باجی میں تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی سارا دن فوج کے خلاف پوسٹس کر کر کہتے ہیں ہم تو تنقید ہی نہیں کر سکتے۔۔۔ حالانکہ سب سے زیادہ تنقید ہی اس ادارے پر کرتے ہیں۔۔۔
مطیع اللہ جان جیسے کچھ صحافیوں نے وطیرہ بنایا ہے کہ پاکستان کے خلاف چھاپو اور ساتھ ایک آدھا آرٹیکل فوج کے خلاف لکھ دو تاکہ کل کو جب اٹھائے جاؤ تو شرلی چھوڑ دو کہ ایجنسیوں نے اٹھایا ہے۔۔۔۔ حقیقت عیاں ہو کر رہتی ہے۔۔
No comments:
Post a Comment