اقبالیات
طارق کی دُعا
(اندلس کے میدانِ جنگ میں)
(نظم مع تعارف و تشریح)
یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنھیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم، ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کُشائی
خیاباں میں ہے مُنتَظِر لالہ کب سے
قُبا چاہیے اس کو خُونِ عرب سے
کیا تُو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں، نظر میں، اذانِ سحَر میں
طلب جسکی صدیوں سےتھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انھی کے جگر میں
کُشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دلِ مردِ مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرۂ ”لَا تَذَر“ میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے!
(بالِ جبریل، اقبال)
پس منظر و تعارف:-
طارق بن زیاد کا شمار دُنیا کے بہترین سپہ سالاروں میں ہوتا ہے۔ وہ اصل میں موسیٰ بن نصیر کا آزاد کردہ غلام تھا اور موسیٰ ہی نے اسے حرب و ضرب کی تربیت دی تھی۔ وہ جنگی منصوبہ بندی میں بڑا ماہر تھا اور غیر معمولی طور پر ذہین، دور بین اور مستعد جرنیل تھا۔ انھوں نے اپنے لشکر کی قیادت کرتے ہوئے 19 جولائی 711ء کو اندلس پر حملہ کردیا اور اندلس کو فتح کرکے وہاں اسلامی حکومت قائم کی تھی۔
موسیٰ بن نصیر خلیفہ ولید کے عہد میں افریقہ ( شمالی و مغربی افریقہ) جسے مغربِ اقصیٰ کہتے ہیں، کا گورنر بنا اور اندلس سے ایک جماعت اس کے پاس راڈ رک شاہِ ہسپانیہ کے ظلم و ستم کی فریاد لے کر آئی، تو موسیٰ نے ہسپانیہ کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے نائب طارق بن زیاد کو 92ھ (711ء) میں تقریباً بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ وہاں بھیجا۔ طارق بن زیاد حملہ آور فوج کا سالارِ اعظم مقرر ہوا۔ وہ اس پہاڑی مقام پر اترا، جو اب تک جبل الطارق (جبرالٹر) کی شکل میں اس کی یاد تازہ کر رہا ہے۔ ہسپانیہ کے ساحل پر اترتے ہی طارق نے جہاز جلانے کا حکم دے دیا، تاکہ کسی مجاہد کو واپسی کا خیال تک نہ رہے اور وہ عزیمت کا پیکر بن کر ہسپانیہ میں اپنے لیے جگہ پیدا کریں۔
طارق بن زیاد نے اپنے لشکر کے سامنے ایک شجاعت آفرین اور زندگی بخش تقریر کرنے کے بعد بارگاہِ خداوندی میں فتح و ظفر کے لیے دُعا مانگی۔ اقبال نے القائے ربانی سے طارق بن زیاد کے دلی جذبات کی ترجمانی حسب ذیلی اشعار میں کی ہے۔ راڈ رک کو شکست فاش ہوئی اور طارق بن زیاد فتح یاب ہوا۔ اس کامیابی نے ہسپانیہ کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا۔
مختصر تشریح:-
تشریح بند نمبر (١)
تشریح شعر نمبر (1):
اے باری تعالیٰ! یہ غازی تیرے وہ بندے ہیں، جن کے بھید ہر شخص پر روشن نہیں ہوسکتے، جنھیں تو نے ذوقِ خدائی عطا کیا ہے یعنی ان کا ہر کام تیری رضا کے مطابق ہوتا ہے۔ تو نے اپنی رحمت سے اس دنیا میں اپنی نیابت اور خلافت کا منصب عطا کیا ہے۔
”پُراسرار“ بندوں کی ایک شرح یہ بھی کی گئی ہے، کہ راڈ رک کو عربوں کے حملے کی خبر ان الفاظ میں ملی تھی، کہ نہ جانے یہ حملہ آور کہاں سے آئے ہیں؟ یہ حملہ آور زمین سے ابل پڑے یا آسمان سے ٹپکتے ہیں، گویا اس حملے نے اہلِ ہسپانیہ کو حیرت میں ڈال دیا تھا، لہذا ہسپانوی نقطۂ نگاہ سے وہ پُراثرار ٹھہرے۔
تشریح شعر نمبر (2):
یہی وہ غازی ہیں، جن کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی ٹھوکر سے جنگلوں اور دریاؤں کے دل دو ٹکڑے ہو گئے اور جن کی ہیبت سے پہاڑ سمٹ کر راہی بن گئے۔
تشریح شعر نمبر (3):
سچ ہے عشق و محبّت میں ایسی لذت ہے، کہ وہ انسان کے دل کو دونوں جہانوں سے بیگانہ کر دیتی ہے، یعنی اے باری تعالیٰ! یہ غازی تیرے عشق کے نشے میں چور ہیں اور اس درجہ سرشار ہیں، کہ دنیا و آخرت میں تیرے سوا ان کا کوئی مقصود نہیں۔ یہ لڑتے ہیں تو تیرے لیے، جیتے ہیں تو تیری خاطر، انھیں کسی اور چیز سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔
تشریح شعر نمبر (4):
مومن کا مقصود و مطلوب شہادت کے سوا کچھ نہیں۔ وہ مالِ غنیمت کے خواہش مند نہیں ہیں اور سلطنت و حکومت کے بھی طلب گار نہیں، وہ ان سے بے نیاز ہیں۔ یہاں مقصود حق پرستی اور صداقت کی گواہی ہے۔
تشریح شعر نمبر (5)
ہسپانیہ اپنی سرسبزی، شادابی اور آبادی کے لحاظ سے پھولوں کی کیاری یا باغ کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے لالے کا پھول بڑی دیر سے انتظار کر رہا ہے۔ وہ ایسی قبا کو چاہتے ہیں، جو عربوں کے خون سے تیار ہو، یعنی اس سرزمین میں اے باری تعالیٰ! تیرا نام بلند ہو۔ میں اور میرے غازی قربانی کا یہ عزم لے کر آگئے ہیں، کہ تیرا نام بلند کریں۔
تشریح بند نمبر (٢):-
تشریح شعر نمبر (1):
اے باری تعالیٰ! تو نے بیابان میں رہنے والے لوگوں کو دین و حیات کی حقیقت اشیا کی پہچان میں اور صبح کی اذان میں بے مثال بنا دیا ہے۔
صبح کی اذان کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے، کہ صبح کے وقت اس کی آواز بے حد دلکش ہوتی ہے اور انسان کے دل ميں اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کا ذوق پیدا کرتی ہے۔
تشریح شعر نمبر (2):
جس تڑپ اور تپش کے لیے زندگی سینکڑوں برسوں سے طلب گار بنی ہوئی تھی، وہ اسے انھیں صحراوں کے جگر میں ملی۔ انسانوں میں زندگی کی حقیقی لو لگانے اور انھیں صحیح طریقِ حیات سکھانے کا کام عربوں ہی نے انجام دیا اور کوئی قوم یہ کام نہ کرسکی۔
تشریح شعر نمبر (3):
یہ مجاہد ایسے ہیں، کہ وہ موت کو ہلاکت نہیں سمجھتے، بلکہ دل کے بند دروازوں کا کھلنا سمجھتے ہیں، یعنی مطلب حاصل کرنے کا وسیلہ خیال کرتے ہیں۔ موت کو ہلاکت وہی سمجھتے ہیں، جنھیں حیات بعد الموت کا یقین نہ ہو۔ جس قوم کے لیے اس دنیا کی زندگی حیاتِ آخرت کی کھیتی ہے، جو آخرت کی زندگی کو موجودہ زندگی سے ہزار درجہ بہتر اور افضل سمجھتے ہیں، انھیں موت کیوں کر ڈرا سکتی ہے؟ وہ راہِ حق میں بے خوف ہو کر سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔
تشریح شعر نمبر (4):
اے باری تعالیٰ! تو اپنی رحمت سے مردِ مومن کے دل میں پھر اسی بجلی کو زندہ کر دے، جو حضرت نوح علیہ السلام کے ”نعرۂ لاَتَذَر“ میں موجود تھی، یعنی اس دنیا سے کفر کی ظلمت مٹا دے اور اسے ایمان کے نور سے بھر دے۔
تشریح شعر نمبر (5):
اے باری تعالیٰ! عزم اور بلند حوصلگی کی جو بخشش مومنوں کے سینوں میں محوِ خواب ہیں، انھیں پھر سے جگا دے، تاکہ وہ پھر عظیم الشان مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے اور مسلمان کی نگاہ میں تلوار کی تیزی پیدا کر دے، تاکہ وہ جدھر بڑے، باطل کے پرخچے اڑا کر رکھ دیں اور حق کو انتہائی سر بلندی پر پہنچا دے۔
No comments:
Post a Comment