Socialism ... Communism ... Lenin .. Ernesto Che Guevera ... Karl Marx - Prof. Hamza

Saturday, August 21, 2021

Socialism ... Communism ... Lenin .. Ernesto Che Guevera ... Karl Marx

گذشتہ سے پیوستہ.... دنیا کے بڑے نظام... حصہ دوم... 2) مارکس کی اشتراکیت Marxism Communism and Socialism قارئین کرام! پچھلی پوسٹ میں دنیا کے تین بڑے نظام میں سے آپ کو نہایت آسان الفاظ میں سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا جو کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ چلنے والا نظام ہے. آج ہم جانیں گے کہ اشتراکی نظام سے کیا مراد ہے اور اس کے بانی کون ہیں اور یہ کن ممالک میں نافذ عمل ہے! احباب ذی وقار! اشتراکیت کی جدید ترین شکل کے بانی جرمنی کے شہر Trier کے رہنے والے کارل مارکس ہیں جنہوں نے اس نظام کو اپنے ایک دوست کے ساتھ اپنی دو تصانیف "کمیونزم کا منشور Communist Manifesto" اور "سرمایہ Capital" میں متعارف کروایا. اسی لیے جدید اشتراکیت یعنی Modern Socialism کو مارکسزم کہتے ہیں. یہ نظام اول الذکر (پہلے بیان کیے گئے) نظام کے معاشی اعتبار سے ردِ عمل کے طور پر آیا تھا. باقی معاشرتی اعتبار سے لبرلزم اور سیکولرازم جیسی حالتوں میں تقریباً دونوں یکساں ہیں. آسان الفاظ میں یہ کہ پہلے نظام سے اس نظام کا زیادہ اختلاف صرف معاشی سطح پر ہے. یاد رہے کہ آج سے دو صدیاں پہلے انجن اور مشینری کی ایجادات کے بعد یورپ میں صنعتی انقلاب آیا اور لوگ جو برسوں سے زراعت سے وابستہ تھے دھڑا دھڑ صنعتوں کی طرف مائل ہوئے. پیسے سے پیسہ بنانے کے فن برطانوی ماہر معاشیات Rothschild بتا رہا تھا پس سرمایہ دار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے گئے. لیکن جو طبقہ سارا دن صنعتوں میں محنت مزدوری کرتا تھا اور کسانوں کا طبقہ ان سرمایہ داروں کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتے تھے. جب ایک ہی قوم کے درمیان ایک طبقاتی فرق کی خلیج بڑھنے لگی تو دونوں طبقوں نے ایک دوسرے کے خلاف نفرت پال لی. حکومت عموماً سرمایہ داروں کا ساتھ دیتی کیونکہ ملکی معیشت انہی کے بل بوتے پر تھی اور اس وقت ویسے بھی مزدور طبقہ یا تو غلام ہوتا یا ملک کے وہ شہری ہوتے جنہیں دوسرے درجے کا شہری گردانا جاتا جیسا کہ مارکس کے اپنے ملک جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ اتنا برا برتاؤ کیا گیا کہ مارکس کا خاندان مجبوراً عیسائی ہو گیا لیکن کارل مارکس بعد میں مذہب کا ہی منکر ہو گیا اور لادینیت اور الحاد کا پرچار کرتا رہا. دراصل اس نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی وہاں مذہب کے ٹھیکیدار پادریوں نے مذہب کو ایک آلہ بنایا تھا جس کی مدد سے غریبوں کو تقدیر کا سبق سکھا کر غلام ذہنیت دی جاتی. اس لیے مارکس کا مذہبی معاملات میں یہ برتاؤ چنداں حیران کن نہیں.... کارل مارکس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب سرمایہ یعنی دولت چند لوگوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے تو معاشرے میں طبقاتی خلیج بڑھتی ہے جس سے ایک مثالی معاشرہ تشکیل نہیں پا سکتا اور مذہبی اشرافیہ مذہب کے ذریعے عوام کی ذہنی ترقی کو مفقود کر دیتی ہے جس سے معاشرے کے افراد ذہنی طور پر مفلوج ہو جاتے ہیں. اس لیے سرمایہ چند اشخاص کے پاس نہیں بلکہ حکومت کے پاس عوام کی امانت کے طور پر ہو. تاکہ سب کو برابر کی آسائشیں میسر ہوں اور معاشرے میں یکجہتی ہو جس سے ایک خوشحال معاشرہ پروان چڑھے... کارل مارکس بھی اپنے نظریات کو مافذ نہ کروا سکا بلکہ اس کی موت کے کئی سالوں بعد 1917 میں روس میں بالشویک انقلاب آیا جس سے روسی زار بادشاہت ختم ہوئی اور پہلی دفعہ کارل مارکس کے نظریات کو نافذ العمل کیا گیا. جس شخص نے روسی انقلاب کو کامیاب کروایا وہ جدید روس کا بانی ولادی میر لینن تھا. روس میں اشتراکیت اتنی کامیاب رہی کہ روس سپر پاور بن گیا اور وسط ایشیائی ممالک اور مشرقی یورپ کے ممالک سے اتحاد کر کے سوویت یونین تخلیق کیا جو رقبے اور وسائل کے لحاظ سے بہت عظیم تھا. روس میں کامیاب اشتراکی انقلاب کے اثرات کئی ممالک پر پڑے. پورے یورپ اور امریکہ کی دوڑے لگ گئیں کیونکہ ان کا نظام داؤ پر لگ گیا کہ کہیں ہر جگہ لال لال نہ لہرا جائے. دراصل دوستوں روسی انقلابیوں کی وردی سرخ تھی جس بنا پر اب ہر اشتراکی یعنی کمیونسٹ کو سرخہ بھی کہتے ہیں. لال انقلاب بھی اسی طرح کی اصطلاح ہے. روس کی فوج کو بھی Red Army اسی وجہ سے کہتے ہیں. سرخ رنگ کی ایک وجہ خون سے مشابہت بھی ہے کیونکہ عموماً اشتراکی انقلاب بہت قربانیاں دے کر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے مقابلے میں اس نظام میں سختی زیادہ ہے اور جہاں یہ نافذ ہو جائے وہاں بے حد سختی کے ساتھ اس کے نظریات کا تحفظ کیا جاتا ہے. روسی دارالحکومت ماسکو میں سرخ چوک Red Square بھی اسی انقلاب کی یاد میں ہے. جب تک سوویت اتحاد رہا دنیا دو حصوں میں تقسیم رہی کوئی امریکی نظام جمہوریت کا حامی اور کوئی روسی اشتراکیت کا. حتی کہ کئی ممالک مثلاً جرمنی کوریا اور ویتنام دو حصوں میں تقسیم رہے ایک حصے پر امریکہ کا حامی گروپ اور دوسرے پر روس کا. اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اے این پی ایسی جماعت ہے جو کمیونزم کی حامی ہے. فیض احمد فیض بھی سوشلزم کے دلدادہ تھے اسی لیے لینن ایوارڈ کے حقدار بھی پائے. ایران کے علی شریعتی بھی کمیونسٹ انقلاب کے حامی تھے. 1991-92 میں جب سوویت یونین کے ٹکڑے ہو گئے تو دنیا نے سمجھا کہ اشتراکیت کا سورج غروب ہو گیا مگر ابھی بھی وینزویلا کیوبا وغیرہ روس کے علاوہ وہ ممالک ہیں جہاں اشتراکیت ابھی بھی زور و شور سے جاری ہے. کل ابھی اس شخص کی برسی گزری ہے جس کی بدولت دنیا کے کونے کونے میں اشتراکیت کا پیغام پہنچا جی ہاں! ارنیسٹو چی گویرا.... باقی انشاءاللہ اگلی پوسٹ میں.....

No comments:

Post a Comment