حیا ایمان کا حصہ ہے۔ الحدیث - Prof. Hamza

Tuesday, April 28, 2020

حیا ایمان کا حصہ ہے۔ الحدیث

درحقیقیت سناءی تو مولانا نے حدیث تھی تو لوگوں کو اختلاف کس بات کا ہے؟ اصل میں اربوں ڈالر کی فیشن انڈسٹری کے خلاف بات کر بیٹھے جس نے بیحیاءی کو پروان چڑھا رکھا ہے۔ میرے حلقہ احباب میں شاید ہی کویٴ دوست ہو جس کے لڑکی کے ساتھ غلط مراسم نہ ہو یا رہے ہوں۔ یونیورسٹی لایف میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں جہاں عورت
خود اپنا استحصال کرواتی ہے مگر بعد میں مظلوم بن کر ہمدردیاں سمیٹتی ہے جہاں مرد عورت کو کھلونا سمجھتا ہے جبکہ اپنی بہن کے معاملے پرغیرت جاگ جاتی ہے۔ خود لڑکی کے ساتھ مذاق کرے تو جسٹ فرینڈ۔ بہن کو کرتا دیکھ لے تو جذبہ ایمانی بیدار۔ کیا یہ منافقت نہیں؟ بے حیایٴ صرف عورتوں کے ساتھ منسلک نہیں اسلام نے تو عورتوں کو پردے سے حکم سے پہلی آیت میں مرد کو نگاہیں نیچی رکھنے کا کہا ہے۔اس میں سب سے بڑا ہاتھ میڈیا کا ہے جو برتن دھونے والے صابن سے لیکر بظاہر نیک ڈرامہ سیریل تک دو نامحرم کے رشتے کو بے عیب دکھاتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مولانا نے ڈاءریکٹ عورت کو اٹیک کیا او بھایٴ باقی تین کام تو مردوں پر ٹھونپے انہوں نے۔ یہ بیحیایٴ والا ڈھبہ بھی برابر کا بانٹا بلکہ یوں کہا کون میرے ملک کی بیٹیوں کو ننگا نچواتا ہے﴿مطلب بالواسطہ مرد کو ہی طنز﴾ جس سرمایہ دار طبقے کی بات کی جاتی ہے مطلب اسی پر طنز جو عورت کا استحصال کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جی فلاں ملک بھی بیحیا ہے مگر اس کے تو واڑے نیارے ہیں۔ ایک بات یاد رکھیں اللہ ہر قوم پر مختلف وجوہات کی بنا پر عذاب یا آزماءش بھیجتا ہے۔ کیٴ لوگ روزانہ جھوٹ بولتے ہیں جبکہ کیٴ کبھی کبھار بولیں تو اللہ فورا رسی کھینچ دیتے ہیں۔ یہ اللہ کی مرضی ہے۔ مگر یار کم از کم اپنی غلطی تو تسلیم کرو کہ ہم بیحیا ہیں۔ مسدس حالی کے آغاز میں مولانا نے بقراط کا واقعہ شامل کیا ہے کہ اس سے کسی نے پوچھا کہ سب سے بڑا مرض کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ مریض سمجھے ہی نہ کہ میں مریض ہوں۔ یہی حال اب میری قوم کا ہوا ہے

No comments:

Post a Comment