عیب جوئی اور ٹوہ لگانا - Prof. Hamza

Tuesday, April 28, 2020

عیب جوئی اور ٹوہ لگانا

کوئی حامد میر کے خلاف اخلاق کی دھجیاں اڑا رہا ہے اور کوئی مولانا طارق جمیل صاحب کے خلاف زبان درازی کر رہا ہے؟ یہ در حقیقت دو طبقے ہیں۔ ایک طبقہ مولانا کا نام نہاد فالوور ہے۔ نام نہاد کیوں کہا اس لیے کہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمارا کوئی نظریہ نہیں۔ ہم کسی کی بات نہیں مانتے بس غلام ہو جاتے ہیں۔ پہلے طبقے کو دیکھا جائے تو کیا وہ بھول گئے کہ مولانا ہر بیان میں اخلاق حسنہ کی تلقین کرتے ہیں اور آپ ہیں کہ بہتان تراشی اور گالی گلوچ کی بوچھاڑ کی ہوئی ہے
دوسرا طبقہ جو حامد میر کا حمایتی ہے وہ اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں انکے بڑوں کے نزدیک تو ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے اور آزادانہ کہنے کا بھرپور حق ہے۔ مگر جب مولانا نے اپنی رائے بتائی تو مرچیں کیوں؟ کیا ماضی میں یہ طبقہ آزادی صحافت یا فریڈم آف سپیچ کے نام پر مولویوں سمیت کتنے لوگوں کو روندتے نہیں رہے؟ اور اس کو اپنی رائے کہتے رہے۔
خدارا محبتیں پھیلائیں نفرتیں تو میرے ملک کو پہلے ہی بہت کھا چکی ہیں۔ رمضان کے واسطے ہی اسلامی تعلیمات کو مان لو اور اس کے مطابق تو ہم کسی برے کو بھی برا نہیں کہہ سکتے۔ کیا گالی سے برا درست ہو جائے گا؟ ایسا ہوتا تو صحابہ رضوان اللہ اجمعین بھی کفار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھی یہی طرز عمل اختیار کرتے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ آپ اپنے عقیدے پر عمل پیرا رہیں۔ بہتر کی جستجو کرتے رہیں مگر اپنے مخالف کی عیب جوئی ہر گز مت کریں کیونکہ اللہ فرماتے ہیں:
ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو ٹوہ لگاتا ہے اور عیب جوئی کرتا ہے۔ الھمزۃ

No comments:

Post a Comment