پہلا بند “شکوہ“
کیوں زیاں کار بنوں، سود فراموش رہو
فکر فردا نہ کروں، محو غم دوش رہو
نالے بلبل کے سنوں، اور ہمہ تن گوش رہو
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہو کہ خاموش رہو
جرات آموز میری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
مفہوم: پہلے مصرعے میں اقبال مسلمان قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں کیوں نقصان اٹھاتا رہوں اور فائدے کو نظر انداز کرتا رہوں۔ یعنی مسلمان قوم نقصان ہی نقصان اٹھا رہی تھی جبکہ غیر مسلم و ملحد عروج پر تھے حالانکہ توحید پرست تو ہم ہیں۔ دوسرے مصرعے میں فردا کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کل۔ یعنی اقبال کہتے ہیں میں کل کی فکر کیوں نہ کروں اور اندر ہی اندر گھلتا رہوں۔ اب تو حالات پھر بھی ٹھیک ہیں لیکن اس وقت یہ نظر آرہا تھا کہ مستقبل میں مسلمان مٹ کر رہ جائے گی۔ کیونکہ نہ تو خلافت عثمانیہ رہی اور نہ مغلیہ سلطنت۔۔۔۔۔ تو اقبال اس وقت کے مسلمان کے دل کی بات کہتے ہیں کہ ہم مٹ رہے ہیں ہم غم میں مبتلا ہیں جبکہ اللہ ہمارا ساتھ نہیں دے رہا حالانکہ ہم پچاس سال سے دعائیں مانگ مانگ کر تھک گئے ہیں۔ تیسرے مصرعے میں بلبل کا ذکر ہے۔ ایک بات یاد رکھیں کہ مسلمان شعرا اسلام کو باغ سے جبکہ اللہ کو باغبان سے مماثلت دیتے رہتے ہیں۔ اسی لیے اقبال کہتے ہیں کہ باغ اجڑ رہا ہے بلبل اپنی دکھ بھری کہانی سنا رہا ہے یعنی مسلمان رو رہے ہیں بلک رہے ہیں۔ چوتھے مصرعے میں کہتے ہیں کہ جس طرح پھول کو جب بلبل کچھ کہتا ہے تو پھول ہمیشہ خاموش ہی رہتا ہے لیکن اقبال کہتے ہیں کہ میں پھول نہیں میں خاموش نہیں رہوں گا میں تو بولوں گا۔ میں بلبل کی دکھ بھری کہانی تمہں سناؤں گا۔ آخری شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ جو تم نے ہی مجھے بولنے ہی صلاحیت دی ہے وہی اب مجھے بولنے پر مجبور کر رہی ہے اور میری جرات مجھے ابھار رہی ہے کہ اب بولو اور اللہ کے ہاں اپنا شکوہ ریکارڈ کرواؤ۔ اب میرے منہ میں خاک مجھے اللہ سے شکوہ ہے۔
در حقیقت اقبال پہلے بند میں سے جارحانہ دکھائی دے رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اقبال نے انہیں اشعار کی شکل دے دی ورنہ اس وقت تقریبا ہر مسلمان کے دل میں یہ خلش موجود تھی کہ نمازیں ہم اب بھی پڑھتے ہیں توحید کے ماننے والے ہم اب بھی ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جان قربان کرنے کے لیے ہم اب بھی تیار ہیں لیکن کیوں ذلت ہمارا مقدر بنتی ہے اور کافر عروج پر جا رہے ہیں
Fabulous
ReplyDeleteI need more
ReplyDeleteWill be uploaded soon
ReplyDelete