ہمارا میڈیا اور آنے والے چند دن:
ہم خوش ہیں کہ ہمارے ہم مذہب و ہم عقیدہ، البتہ غیرت مند ہمسائے، اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، اپنی سرزمین کو اپنی نسلوں کے لیے استعماری قوتوں سے آزاد کروانے میں ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوئے ہیں۔۔۔ ہم پر امید ہیں کہ وہ اپنی ریاست کو ریاست مدینہ کی طرح سنبھال پائیں گے اور دعا گو ہیں کہ ان مقاصد کو حاصل کرنے میں اللہ رب العزت ان کے حامی و ناصر ہوں۔۔۔۔
لیکن۔۔۔۔
آنے والے چند دنوں میں آپ ان لوگوں کے بارے میں بہت کچھ سنیں گے۔ دنیا سے ان کی یہ فتح اور حقیقی فاتحین کا سا انداز برداشت نہیں ہو رہا۔ آپ کو بتایا جائے کہ یہ ایسے اور ایسے انداز میں ظالم ہیں۔۔۔ ان کے ظلم کی من گھڑت کہانیاں سنا سنا کر آپ کو یقین دلانے کی کوشش کی جائے گی کہ یہ دراصل وحشی ہیں۔ آگے بڑھ بڑھ کر خواتین اور بچوں کے حقوق سلب کر لیے جانے کی داستانیں سنائی جائیں گی۔ جن معاملات کو پچھلے 20 برس پر محیط اس جنگ میں نہیں چھیڑا گیا، ان کو اپنی مرضی کا رنگ تو ابھی دیا جانا ہے۔۔ ابھی تو صرف آغاز ہوا ہے۔
ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو شائد اس جنگ کے محرکات اور اس کے آغاز کے حالات و واقعات کے بارے میں علم نہیں ہے۔زمانے نے افغانستان میں سکون کا عرصہ بھی دیکھا ہے۔ چند نیک لوگوں کو یہاں کا نظام چلاتے بھی دیکھا ہے۔
کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ اس معاملے کا پہلے ذکر ہی نہ ہوا کہ پچھلے 20 برس میں افغانستان میں کیا چلتا رہا، کون کس پر ظلم کرتا رہا، کون کس کے بچوں پر بم برساتا رہا۔۔۔کون کس کے عوام کو بے گھر اور کون کس کی خواتین کو بے آسرا کرتا رہا؟
فرق پہچانیے۔۔۔۔!!!!
اگر اس میڈیا کی ہر چیخ، ہر داستان پر ہی کان دھرنے ہیں تو کچھ تھوڑی بہت توجہ دہشت گردی میں ملوث فلس -طینیوں پر بھی دیجیے،جنہوں نے بیچارے اسر -ا-ئیل پر ظلم کی انتہا کر رکھی ہے۔ ادھر وحشی کش -میریوں کے ہاتھوں آئے روز قتل ہو جانے والے ہن -دو - ستانی افواج کی آہ و فغاں کو بھی تو سنئیے۔۔۔
امن کے ٹھیکے داروں کے لکھے جرائد و رسائل پر یقین کریں گے تو پھر ان کے مطابق تو ارطغرل بھی ایک انتہائی ظالم جنگجو تھا جس سے ساری ترک عوام تنگ تھی۔
اور یہ میڈیا، یہ ٹی وی چینل، 1947 میں ہوتے تو پھر تو محمد علی جناح سے زیادہ برا پوری صدی میں کوئی نہ ہوتا۔
ان تمام کہانیوں میں برا بس ایک ہی گروہ ہے۔۔۔۔اور وہ ہیں میں اور آپ۔۔۔۔یعنی اللہ کے نام لیوا، کلمہ گو۔۔۔!!
افغانستان جن کا ملک ہے، انہوں نے آزاد کروا لیا۔۔ ان کی مرضی، جیسے چاہے چلائیں۔۔۔ ہاں مگر جو بھی کریں، وہ پچھلے بیس برس کے دوران یہاں "امن" قائم کرنے آنے والوں کی کوششوں سے بہتر ہی ہو گا۔
ان لوگوں کے پاس اپنا میڈیا نہیں ہے۔ ان کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہیں کہ وہ اپنی اصل پہچان کو دنیا کے سامنے لا سکیں۔۔ ان کے پاس محض ان کا ایمان ہے، اور اللہ رب العزت نے جدید ترین اسلحے سے لیس سپر پاور اور پرانی بندوقیں رکھنے والوں کے مابین اس جنگ میں کس کا ساتھ دیا، یہ اس معاملے کی حقیقت کو پہچاننے کے لیے واضح ترین ثبوت ہے۔
اس جنگ سے قبل، جب یہ لوگ حکمران تھے، تو انہوں نے اپنی سرزمین افغانستان کو پاکستان پر طبع آزمائی کے لیے ہن-دوس-تان کے سامنے پیش نہیں کر دیا تھا۔ امن نہ صرف ان کے اپنے ملک میں تھا، بلکہ اس پورے خطے میں ہی پچھلے بیس برس جیسے حالات نہ تھے۔ یہ تمام تماشہ جس کی ذمہ داری آج ان پر ڈالی جا رہی ہے اور آنے والے دنوں میں ڈالی جائے گی، اس کے اصل ذمہ دار وہ امن کے ٹھیکے دار ہیں جن کو سات سمندر پار سے اس خطے میں آ کر "امن" قائم کرنے کا خیال آ گیا۔
آگے کا سارا مدعا اب ہماری سمجھ بوجھ پر منحصر ہے۔ کیا ہم پورے مغرب کے چیختے چلاتے میڈیا کی داستانوں پر اب یقین کریں گے، جبکہ پچھلے بیس برس افغانستان میں ہونے والے واقعات پر اس میڈیا نے کوئی آواز ہی نہ اٹھائی؟ ان نیوز چینلز اور ان اینکرز کی باتوں کو اہمیت دیں گے جنہوں نے ایک پر امن ریاست پر بم برسا برسا کر اس کو اجاڑ ڈالنے کو صحیح ثابت کر دیا؟ کیا کوئی حیثیت ہے ان خبر رساں اداروں کی جو بیت المقدس کی حفاظت کی خاطر جانوں کی پرواہ نہ کرنے والوں تک کو دہشت گرد بنا کر پیش کرتا ہے؟
اور ہاں۔۔۔۔اب یاد کیجیے اس برطانوی خاتون صحافی مریم ریڈلی (سابقہ Yvonne Ridley) کو، جو ان "دہشت گردوں" کی قید میں رہی اور اس نے ان کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ برطانوی میڈیا کی صحافی، کم از کم ہم سے تو زیادہ ہی سمجھدار رہی ہو گی۔۔ اتنی عقل تھی تو وہ اتنے ظالم لوگوں سے کیسے متاثر ہو گئی، اور ان کی حامی بھی بن گئی۔ ممکن ہو تو اس کی کتاب کا مطالعہ ضرور کیجیے، جو اس نے اپنی قید کے حالات و واقعات سے متعلق لکھی ہے۔
حق کو میڈیا کی نظر سے نہیں، اپنی نظر سے پہچاننے کی کوشش کیجیے۔
✍️: ام الھدیٰ
No comments:
Post a Comment